انصر حسن ۔۔۔ بتانا تھا جِنھیں ان کو بتا کر میں نکل آیا (ماہنامہ بیاض لاہور 2023 )

بتانا تھا جِنھیں ان کو بتا کر میں نکل آیا
کئی ہنستے ہوئے چہرے رلا کر میں نکل آیا

وہ جس معصوم خواہش نے مجھے جینا سکھایا تھا
اسی معصوم خواہش کو دبا کر میں نکل آیا

میں جس کی مان جاتا تھا ، جو رستا روک لیتی تھی
اسے بھی آج رستے سے ہٹا کر میں نکل آیا

کہاں ہے ناشتہ میرا ؟ کدھر کپڑے گئے میرے ؟
ابھی چائے بناؤ گی ؟ نہا کر میں نکل آیا

کسی کا آج بھی میرے دماغ و دل پہ قبضہ ہے
کسی کے ہاتھ سے دامن چھڑا کر میں نکل آیا

جو اپنے ساتھ رہتا تھا ، مری ہر بات سہتا تھا
اسے بھی گالیاں کافی سنا کر میں نکل آیا

تری بے مہر بستی سے ، تری بے درد بستی سے
خدا کا شکر ہے بچے بچا کر میں نکل آیا

وہ جس بیکار نے مجھ کو ابھی نیچا دکھانا تھا
اسی بیکار کو نیچا دِکھا کر میں نکل آیا

جنھیں تاریخ پڑھنی تھی ، جنھیں تفسیر پڑھنی تھی
سبق ان کو محبت کے پڑھا کر میں نکل آیا

کسی دہلیز پر میں نے لگایا قہقہہ انصر
کسی دہلیز پر آنسو بہا کر میں نکل آیا

Related posts

Leave a Comment